کہا ں سے چلے تھے کہاں آگئے ہم ۔

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 4:37:00 AM -
  • 0 comments
 
 اے ڈ ی سی کو پیغام ملا کہ گورنر جنرل  محمد علی جناح کھانے کے کمرے میں آپ کو یاد فرمارہے ہیں ۔ اس اچانک طلبی پر اے ڈی سی صاحب  پریشان ہو گئے ۔ پریشانی کے عالم میں جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ گورنر جنرل محمد علی جناح کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے چہرے سے ناگواری جھلک رہی تھی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر اے ڈی سی صاحب کی گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا۔

 اس نے جونہی یس سر کہا قائدِ اعظم گویا ہوئے اور اے ڈی سی کو کہا آپ کو ہدایت کی گئی تھی کہ کھانے کی میز پر اتنے ہی سیب رکھے جائیں جتنے مہمان ہوں ۔ مگر آج کھانے کی میز پر میں فاطمہ اور ایک مہمان تین لوگ تھے مگر سیب 4 رکھوائے گئے ۔
جہاں ایک طرف یہ سرکاری پیسے کا اسراف اور کھانے کا ضیاع ہے وہا ں آپکی لا پرواہی  بھی ۔ کڑوے کسیلے لہجے میں یہ کہہ کر جب محمد علی جناح خاموش ہوئے توچپ چاپ سر جھکائے کھڑے اے ڈی سی صاحب نے  کہا واقعی سر یہ میری غلطی تھی آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ یہ سن کر قائدِ اعظم نے نرم لہجے میں کہا اوکے آپ جا سکتے ہیں۔ 
ہمارے سفر کا آغاز کیسا تھا ، ہم کہاں سے چلے تھے ۔ کہاں آگئے ہیں۔ اور جانا کہاں ہے۔
کہاں سے تلاش کرو گے ایسا کردار۔ "اعلیٰ کردار لافانی اور لازوال ہے" دولت اور اقتدار نہیں ۔
سیب چار ۔ سیب تین فقط ایک سیب نے گورنر جنرل پاکستان کا موڈ آف کردیا۔  پاکستان ایسے ہی تخلیق نہیں ہو گیا تھا۔ قوم نے قائد اعطم کا خطاب ایسے ہی نہیں دے دیا تھا ۔ اگر خطاب چھینے یا چرائے جا سکتے تو پتہ نہیں ہمارے ہاں کتنے ہی  قائدِاعظم، قائدِ عوام ، اورقائدِ پاکستان بن بیٹھتے۔
آج ہمارے حکمران قوم کا خون نچوڑ کر کس طرح اپنی تجوریاں بھرنے اور ان کی حفاظت میں دن رات ایک کیئے ہوئے مصروف ہیں ۔ پتہ نہیں انکی تجوریاں اور حوس کی کیپیسٹی کتنی ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں ۔ پا کستان کنگال ہو گیا ہر پاکستانی کو انہوں نے پیدائشی لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا لیکن ان کی حوس ختم نہیں ہو رہی۔ ایک چور زرا سی گردن اوپر کرکے دوسرے چور پر غراتا ہے تو وہ جیب سے شیشہ نکال کر اس کو دکھا دیتا ہے تو وہ وہیں خاموش ہو جاتا ہے۔ کسی بڑے سائز کے لیڈر نے فرمایا تھا جمہوریت بڑا انتقام ہے تو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ کیا گل کھلا گئے ہیں ۔ اب جب جمہوریت کو بھگتنا پڑا ہے تو سمجھ آئی ہے کہ جمہوری انتقام کیا شے ہے۔
جب عوام کو دیکھتے ہیں تو کسی کے پیر میں جوتی نہیں کسی کے سر پر ٹوپی نہیں کسی کے پیٹ میں روٹی نہیں۔ کسی کے ساتھ پٹواری جوق کی طرح چمٹا ہوا خون پی رہا ہے ۔ کوئی بجلی والوں کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔ کوئی تھانے میں لترکھا رہا ہے ۔ کسی کی جوانی اور بڑھاپا انصاف کی تلاش میں عدالتوں اور کچہریوں کی راہداریوں میں دفن ہوگیا۔
جب حکمرانوں کے حالات دیکھتے ہیں تو کوئی پاکستان کے امیر ترین لوگوں کی لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے کوئی دوسرے نمبر پر۔
اوپر والوں کی دیکھا دیکھی نیچے تک چھوٹے چھوٹے سرکاری اہل کاروں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ ہر ایک ملک ریاض بننے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ سرکاری دفتروں میں ذاتی دکانیں بڑی آزادی سے چلا رہے ہیں۔ کیا مجال ہے دھیلے کا کام بھی بغیرشکر چوری کے کسی دفتر سے ہو جائے۔ نہ حساب نہ احتساب۔ 
حکمران بھی دھن کے پکے ہیں اور عوام بھی ۔ وہ اپنے جمہوری انتخاب پر اڑے ہوئے ہیں، اور کسی تبدیلی کے بارے میں گمان تک نہیں کرتے اور حکمران بھی جمہوری انتقام پر پوری قوت سے کار بند ہیں۔
ہماری خوش قسمتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قائدِ اعظم جیسا سچا کھرا لیڈر عطاکیا یہ زمانہ نہ اس کی دیانت ،ذہانت ،کی مثال پیش کر سکتا ہے نہ اس کے عظم اور جرائت کی ۔  اس عظیم لیڈر کی  انتھک محنت سے وسائل سے مالا مال ملک عطاہوا۔
لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے اس نعمتِ خداوندی کی قدر نہیں کی اور اپنی  نااہلی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے آج اس عظیم ملک کو بے وقار اور تنگ دست بنا دیا ہے۔
خار بوئے تھے پھول نکلتے کیسے۔
کمیونیکیشن کے ذرائع عام ہونے کی وجہ سے اس بات کا سخت خطرہ موجود ہے کہ کہیں عوام کو حقیقی جمہوریت کی بھنک نہ پڑ جائے تو پھر عوام تو بادشاہوں سے بادشاہوں جیسا سلوک نہیں نہ کرتے انکے حساب کتاب کا طریقہ تو ان کی طرح بڑا ہی بھونڈا ہوتا ہے۔




Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: