شوگر کی وجوہات

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 9:01:00 PM -
  • 0 comments
سوال پیدا ہوتاہے کہ انسنی جسم مین کونسی خرابی پیدا ہوجاتی ہے یا کونسا عضو صحیح طور پر کام نہیں کر رہا ہوتا جس کے باعث شوگر کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ محققین ڈاکٹر اورظبیب ابھی تک مرض شوگر لا حق ہونے کے ٹھوس اسباب دریافت نہیں کر سکے، تاہم شوگر کے Happy fat man with unhealthy lifestyle symbols around him such as junk food, sweets, video game and unhealthy drinks. Flat concept illustration of bad habits isolated on white - stock vector

ہضم و جذب سے جن اعضا کا تعلق ہے ان کی صحت وکارکردگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس لحاظ سے شوگر کی تکلیف ہیدا ہونے کی چھ بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں،
1-لبلبہ Pancreas
 شوگر عام ہونے کی وجہ سے لبلبے نے کافی شہرت حاصل کرلی ہے اور اکثر لوگ کسی حد تک جسم کے اس اہم حصے سے واقف ہیں۔
لبلبے کا تعلق غدودوں کے اس خاندان سے ہے جو مخلوط نوعیت کے ہوتے ہیں ،یعنی بیک وقت یہ غدود ایک سے زیادہ امور سر انجام دیتا ہے یہ غذا کے انہضام میں مدد دینے والے خامرے Enzymes پیدا کرتا ہے۔ جو نشاستہ Carbohydrates لحمیات Protein ،چکنائی Fat کے انہضام میں مدد دیتے ہیں۔
ہمارے جسم میں شکر کے ہضم و جذب  میں لبلبہ کا رول بہت اہم ہے۔ لبلبہ کچھ اہم ہارمون (chemicals made from glands)پیدا کرتا ہے جن میں ایک بہت اور خاص ہارمون انسولین ہے۔ انسو لین جسم میں شوگر کے ہضم و جذب توانائی پیدا کرنے اور جسم میں سٹور ہونے کے پورے نظام  کو کنٹرول کرتی ہے۔یہ خون میں دورہ کرتی ہوئی عضلات میں جاتی ہے۔ اور وہاں پہنچ کر شکر کی تحلیل اور تجزیہ میں مدد دیتی ہے۔
اگر کسی وجہ سے لبلبہ اپنی خاص رطوبت انسولین پیدا نہ کرے یا جسم کی ضرورت سے کم پیدا کرے۔ یا ناقس پیدا کرے یا  مزاحمت کی وجہ سے عضلات میں نہ پہنچ سکے تو پھر شکر کا تجزیہ نہیں ہو تا یعنی شکر پانی اور کاربن میں تبدیل نہیں ہوسکتی بلکہ گردوں کی راہ پیشاب میں خارج ہونے لگتی ہے۔ اس کیفیت کانام شوگر ہے۔
2۔ جگر
ہم جو غذا بھی لیتے ہیں وہ ہضم و جذب پو کر جگر میں چلی جاتی ہے اور وہاں شکر حیوانی Glycogen میں تبدیل ہوکر سٹور رہتی ہے جب جسم کو ضرورت پڑتی ہے تو جسم کا ؑعضلاتی نضام حیوانی شکر کودوبارہ گلو کوز میں تبدیل کرد یتا ہےعضلات میں شکر کاربن اور پانی میں تحلیل ہو جاتی ہے جس سے جسم میں حرارت اور قوت پیداہوتی ہے ۔چونکہ اس نظام میں جگر بھی پوری طرح شامل ہوتا ہے اس لیئے اگر جگر کے فعل میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو پھر بھی پیشاب میں شکر آنے لگتی ہے۔جگر کے فعل میں اس قسم کی خرابی بعض دماغی امراض سے بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
3 -دماغ
دماغ کے بطنِ چہارم میں ایک مقام ہے جس کو شوگر پنکچر یعنی سوراخِ شوگر بھی کہتے ہیں۔ اگر دماغ میں اس مقام پر سوئی چبھو دی جائے تو پیشاب میں شکر آنے لگتی ہے۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس عمل سے اعصاب محرکہ شرائین میں تحریک پیدا ہوتی ہے جس سے جگر کی رگیں پھیل جاتی ہیں اور جگر میں خون زیادہ مقدار میں آنے لگتاہے جس کے ساتھ شکری مادہ بھی اس قدر زیادہ مقدار میں آجاتاہے کہ جگر اسے سمبھال نہیں سکتا۔
دوسری صورت میں یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جگر کا گلائیکوجینی فعل یعنی شکر انگوری کو شکر حیوانی میں تبدیل کرنے کا فعل اعصاب کے متعلق ہو اور اس کا مرکز دماغ کے چوتھے بطن میں ہو۔ دماغ کے اس مقام پر پھوڑا یا پھنسی وغیرہ ہونے سے بھی شوگر ہوجاتی ہے۔
غم و فکر۔ ٹینشن۔ معاشی پریشانیوں اور زندگی کی دوسری بے شمار تلخیوں سے اعصاب پر سخت دبائو پڑتا ہے۔ یہ صرتِ حال بھی زیادہ تر شوگر کے عارضے کا سبب بنتی ہے۔
4۔ موروثی اثرات
پہلے درجے کا رشتہ رکھنے والے ماں باپ بھائی یا بہں اگر شوگر کے مرض میں مبتلا ہوں  تو جینیاتی طور پر اس مرض کا خطرہ صحت مند افراد میں بھی 50ٖفیصد تک موجود ہوتا ہے۔ اس خطرے کو بہر حال طرزِ حیات سے کم یا زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بہت سے نئے لوگ جو شوگر کا شکار ہو رہے ہیں  وہ موروثی اثرات کی وجہ سے نہیں بلکہ آرامدہ طرزِ حیات کی وجہ سے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔
5۔ موٹاپا
موٹاپا بھی شوگرکیلئے بہت اہم وجہ ثابت ہوئی ہے۔ موٹے لوگوں میں انسولیں کیلئے مزاحمت بڑھ جاتی ہےچنانچہ خون میں شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔ موٹے افراد سمارٹ افراد کی نسبت شوگر کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔  اس صورتِ حال سے بچنے کیلئے ورزش اور کم نشاستہ دار خوراک پر ا نحصار کرناپڑتاہے۔
6۔ طرزِ حیات
آرام دہ طرزِ حیات اختیار کرنا۔ جسمانی سرگرمیوں کانہ ہونا۔ کاہل اور سست رہنا۔ جسمانی مشقت اور ورزش سے گریز کرنا۔
 حفظانِ صحت کے اصولوں کی پاسداری نہ کرنا۔۔خوراک  کے معاملہ میں بد احتیاطی سے کام لینا۔ میٹھی اور چکنائی سے بھرپور غزا کا بلا دریغ استعمال شوگر کے ساتھ ساتھ دیگر امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ 

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: