ہائی بلڈ پریشر کی وجوہات

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 6:55:00 AM -
  • 0 comments
بلڈ پریشر کی بہت سی وجوہات ہیں خاص طور پر موٹاپا  آرام دہ طرزِ حیات۔ ثقیل  بازاری  مرغن خوراک کا استعمال اور ذہنی دبائو بلڈ پریشر کی اہم اور عام وجوہات ہیں۔









موٹاپا
موٹاپا بلڈ پریشر میں اضافے کا بہت بڑا سبب ہے جتنا آپ کے جسم کا وزن زیادہ ہو گا اتنا ہی زیادہ خون آپ  کے پٹھوں اور عضلات کو خوراک اور آکسیجن پہنچانے کیلئے درکار ہوگا۔
موٹاپے سے خون کی نالیوں کی لمبائی اور تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ راستے اور فاصلے بڑھنے کی وجہ سے خون کی روانی کیلئے مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔ اس مزاحمت میں اضافے کے حساب سے بلڈ پریشر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
چربی کے خلیات بذاتِ خود ایسے کیمیائی اجزائ پیدا کرتے ہیں جو دل اور خوں کی نالیوں پر مضر اثرات ڈالتے ہیں۔
آرام طلبی
آپ کا سست ا لوجود رویہ  دوسرے عضلات کی طرح  دل کے عضلات کو بھی سستی کا عادی بنا دیتا ہے ۔ آرام طلب لوگوں کی دل کی دھڑکن عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔جسمانی مشقت اور ورزش سے خون کی نالیاں کھلتی ہیں اور ان کی گنجائش میں اضافہ ہوتا ہے اور بلڈ پریشر کی سطح نارمل رہتی ہے۔
اگر ہم جسمانی طور پر بے عمل ہوں ۔اور اس کے ساتھ موٹاپا بھی ہو تو اس سے بلڈ پریشر میں لازمی اضافہ ہو گا اور نتائج گھمبیر ہونگے۔
نمک
سوڈیم اور نمک کا استعمال بلڈ پریشر کیلئے خطراتی عوامل کی حیثیت سے متنازع ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعض افراد کو نمک یا سوڈیم سے خصوصی طور پر حساسیت ہوتی ہے۔ لیکن ہر انسان پر سوڈیم کا اثر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ سوڈیم ان کئی معدنیات یا
الیکٹرولائٹس Electrolytes  میں سے ایک ہے جو بلڈ پریشر پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے علاوہ جنہیں سوڈیم سے حساسیت ہو باقی افراد کیلئے سوڈیم کو کم کرنے کی نسبت دوسرے الیکٹرولائٹس کا زیادہ مقدار میں استعمال  اہمیت کا حامل ہے۔
ذہنی دبائو ( Stress)
ذہنی دبائو سے ضرر رساں مادوں کی پیدائش میہں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی بنائ پر دلکی دھڑکن میں اضافہ ہو جاتاہے اور خون کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر میں  اضافے سے ہارٹ اٹیک اور فالج کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔
یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ ذہنی دبائو پر قابو پانے کیلئے بہت سے موثر اور آزمودہ طریقے موجود ہیں۔

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: