اسلام آباد(اسرار خان)قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام‘آئندہ 5سال میں 290ارب روپے کے 13 منصوبے شروع ہونگے۔اہم فصلوں کیلیے 28ارب کے 4منصوبے‘پانی کے تحفظ کیلیے180ارب روپے‘کمانڈ ایریاز کیلیے18ارب روپے ‘جھینگوں کی فارمنگ کیلیے 4اعشاریہ4ارب روپے‘کیج فش رجحان کیلیے 2اعشاریہ5ارب روپےمختص کیے جائینگے۔گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں ٹرائوٹ مچھلی کی فارمنگ کے لیے 1اعشاریہ7ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔بچھڑوں کے تحفظ کے لیے 561ملین روپے اور انہیں موٹا کرنے کے لیے 4اعشاریہ1ارب روپے رکھے جائیں گے ۔جب کہ گھریلو پولٹری کے لیے 400ملین روپے مختص کیے جائیں گے۔تفصیلات کے مطابق،وفاقی حکومت تمام صوبوں کے تعاون سے آئندہ پانچ سال میں قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام میں 290ارب روپے خرچ کرے گی ، جس کا مقصد فصلوں کی پیداوار میں بہتری ، فشری اور لائیو اسٹاک کی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرنا ہے ، جو کہ تربیلا اور منگلا ڈیم کی مشترکہ صلاحیتوں سے تھوڑی کم ہوگی۔یہاں یہ بتانا
بھی ضروری ہے کہ وفاقی کابینہ نے منگل کے روز (19مارچ کو)اس پروگرام کی منظوری دے دی تھی جیسا کہ اس حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس شعبے کی بہتری اور کسانوں کے لیے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرے گی۔وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اور ریسرچ کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی نے جمعرات کے روز دی نیوز کو بتایا کہ اس منصوبے کے شعبہ زراعت کے 13پروجیکٹس ہیں۔ان پروجیکٹس پر کام کا آغاز اگست 2018میں ہوا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبوں میں زرعی شعبوں میں بہتری لانے کے لیے وفاقی حکومت نے فصلوں کی پیداوار میں بہتری کے لیے سرمایہ کاری میں اضافے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ اس کی برآمدات ممکن ہو اور زرعی اجناس خاص طور پر تیل کے بیج اور دالوں کی درآمدات میں کمی لائی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پانی کو بچانا بھی چاہتے ہیں کیوں کہ ہرسال زیادہ تر پانی ضائع ہوجاتا ہے۔سیکرٹری کا کہنا تھا کہ ہرسال پاکستان تقریباً4اعشاریہ25ارب ڈالرز مختلف تیل اور دالوں کی درآمدات میں خرچ ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ گوشت، لائیواسٹاک اور مچھلیوں کی پیداوار میں بھی اضافہ کرنا ہے۔صوبوں کو زرعی شعبوں کی منتقلی سے قبل اس شعبے کا بجٹ تقریباً40ارب روپے تھا، تاہم اس کی منتقلی کے بعد یہ کم ہوکر 20سے 25ارب روپے سالانہ ہوگیا ہے۔فی الحال یہ 25ارب روپے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ منتقلی کے بعد صوبوں نے اس شعبے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ان کا کہنا تھا کہ 95فیصد پانی زرعی شعبے میں استعمال ہورہا ہے لیکن ہماری پانی کے درست استعمال کی صلاحیت صرف 40فیصد ہے۔جب کہ باقی ماندہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔کھیتوں میں تقریباً20سے 25ملین ایکڑ فٹ کے قریب پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پنجاب حکومت کے ساتھ موجودہ زرعی مارکیٹوں کی بہتری اور نئی مارکیٹوں کے قیام کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں اور اسے الیکٹرانک مارکیٹ جیسا بنا رہے ہیں۔پہلے اس کا آغاز پنجاب میں کیا جائے گا اس کے بعد خیبر پختون خوامیں کیا جائے گا۔ان مارکیٹوں میں جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔290ارب کے اس منصوبے میں صوبوں کا حصہ 35سے 38فیصد ہوگا ، جب کہ باقی ماندہ حصہ وفاقی حکومت کا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ کپاس کی فصل پر بھی کام کررہے ہیں اور اچھے قسم کے بیجوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور عالمی تعاون سے تحقیق میں بھی بہتری لائی جائے گی۔اس حوالے سے ارجنٹینا سے بات چیت جاری ہے ۔ آئندہ سال ہم نے ڈیڑھ کروڑ کپاس کی گانٹھوں کا ہدف رکھا ہے۔وزارت فوڈ سیکورٹی اور ریسرچ کے ایک سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران تما م صوبوں کے پانچ سالہ مدت کے دوران 13پروجیکٹس مکمل کیے جائیں گے۔اس میں سے چار پروجیکٹس پر 28ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ۔جس کی چار اہم فصلوں میں گندم، گنا ، چاول اور تیل والے بیجوں کی فصلیں شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چوں کہ روز بہ روز پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہورہا ہےاور ہم اس میں کمی نہیں لاسکتے ۔اس لیے ہم نے فصلوں کی پیداوار میں اضافے کا طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ان پروجیکٹس کے تحت تیل کے بیجوں کی کاشت 1اعشاریہ5ملین ہیکٹر پر ہوگئی ۔کاشت کاروں کو آدھی قیمت پر نئی مشینری فراہم کی جائے گی ، جب کہ دیگر سہولتیں بھی فراہم کی جائیں گی ۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیا مہم بھی اس کا حصہ ہے تاکہ کاشت کاروں کو ان پروجیٹس سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے ۔ان کا مزید کہناتھا کہ صوبوں نے بھی اسے سراہا ہے اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹے پروجیکٹس تشکیل دیں گے۔وہ اپنے محکمہ ذراعت سے منظور شدہ پی سی ون بھجوائیں گے ، جنہیں وفاقی حکومت کے پی سی ون کے طور پر شامل کیا جائے گا۔
Source-
0 comments: