پراسٹیٹ گلینڈ انلارجمنٹ، انفیکشن، پیشاب کی تکالیف اور علاج

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 12:12:00 AM -
  • 0 comments


 علامات -
پیشاب کا بار بار آنا خاص طور پر رات کے وقت۔ پیشاب رک رک کر آنا۔ پیشاب کا بہائو سست ہو نا۔ پیشاب کرتے وقت جلن اور چبھن محسوس ہونا یہ علامتیں پراسٹیٹ انلارج منٹ یا انفیکشن کی ہیں۔
ہمارے جسم مین موجود غدودویا گلینڈز میں سے ایک گلینڈ  پیٹ کی گہرائی میں مثانے کے منہ پر واقع ہے۔ چھوٹی اخروٹ کے سائز کا یہ گلیںڈ اپنی موجودگی کا احساس بڑی عمر میں دلاتا ہے ۔جسکی وجہ انفیکشن ہوتی ہے  ۔  اس میں    با لعموم ورم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہےجو جرا ثیم پیدا کرتے ہیں۔ بیس سے پچیس سال پہلے اس تکلیف میں50 سال سے زائد عمر کے 10 لوگوں میں سے 3 لوگ مبتلا  ہوتے تھے لیکن اینٹی بائیوٹک ادویات کی وجہ سے اس تکلیف میں کافی کمی آگئی ہے۔ 
پراسٹیت گلینڈ کی مرد کی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ مردانہ تولیدی صلاحیت سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس گلینڈ سے جو رطوبت خارج ہوتی ہے اس میں سپرم پلتے ہیں ۔ اس رطوبت کی وجہ سے سپرم کو طاقت ملتی ہے اور ان میں حرکت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ سفید رنگ کی اس رطوبت کو طب کی زبان میں مذی کہتے ہیں۔ جنسی ملاپ کے وقت مذی مادہ تولید کے ساتھ خارج ہوتی ہے۔ مرد کےپیلوس میں واقع یہ غدود مثانے کے نیچے مقعد کے اوپر ہوتا ہے۔  پیشاب کی ایک انچ نالی اس میں سے گزرتی ہے اس محل وقوع کی وجہ سےپراسٹیٹ گلینڈ کے بڑھ جانے کی وجہ سے جو تکالیف ہوتی ہیں ان میں پیشاب کا خاص طور پر رات کو بار بار اور رک رک کر آنا۔ پیشاب کرتے وقت درد اور جلن کا احساس ہونا۔ پیٹھ کے پچھلے حصہ میں ، پیلوس اور رانوں کے اوپروالے حصہ میں دردقابلِ ذکر ہے۔ ان علامات کی موجودگی میں معالج سے مشورہ ضروری ہے۔
یہ علامات پراسٹیٹ انلارجمنٹ یا پراسٹیٹ انفیکشن میں ہوتی ہیں۔اگر اس حالت میں صرف انفیکشن ہی ہو تو زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔ پیشاب میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔  لیکن اگر کینسر نےپنجے گاڑلیئے ہوں تو زندگی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
پراسٹیٹ انفیکشن یا انلارجمنٹ کا علاج کیا ہے۔

اکثر مریضوں میِں مذکورہ علامات بتدریج پیدا ہوتی ہیں۔چونکہ یہ غدود عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے اسکی زیادہ فکر نہیں کرنی چاہیئے۔
مردوں کو پیشاب کی نالی میں بار بار انفیکشن اور پیشاب رکنے کی شکائت رہتی ہے اسلیئے اس کا اپریشن کروانا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اگر انفیکشن ہی ہو تو اینٹی بائیوٹک ادویات سے علاج ہو سکتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ سرجری کے خطرات عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھنے لگتے ہیں۔ تو اسلیئے نشتر کی بجائے دوا اور سرجری کی بجائے میڈیسن بہترہے۔  
محض ورم یعنی انفیکشن کی صورت میں دوا کے استعمال سے ورم دور ہو سکتا ہے۔ اور گلینڈ چھوٹا ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں اینٹی بائیوٹک میڈیسن کافی مدد کر سکتی ہیں۔
مشرقی طب میں بھی اس تکلیف کی دوائیں موجود ہیں جن کے استعمال سے رات کوبار بار پیشاب کی حاجت۔  پیشاب رک رک کر یا قطرہ قطرہ آنا۔ پیشاب کا دیر سے شروع ہونا اور اس میں رکنے کی صلاحیت کا نہ ہونا جیسی علامات دور ہو جاتی ہیں۔
میٹھے کدو یا پیٹھے کے بیج
پیٹھے کدو کے بیج میں زنک کا فی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو کہ پراستیٹ گلینڈ کی سوزش کو دور کرتا ہے اور اس کا سائز کم ہو جاتا ہے جس سے پیشاب کی تکالیف دور ہو جاتی ہیں ۔  پیٹھے کے بیج کھانے کی بجائے انہیں گرائنڈ کرکے  ابال کر چائے بنا کر بھی پی سکتے ہیں۔
تربوز کے بیج
پراسٹیت گلینڈ کی تکالیف کیلئے تر بوز کے بیج بھی بہت فائدہ مند ہیں۔ تر بوز کے بیج جسم کی تمام کثافتیں صاف کر دیتے ہیں جو پراسٹیٹ گلینڈ کے کینسر کاذریعہ بنتی ہیں۔
جب آپ تربوز کھائیں تو نصف کپ تربوز کے بیج لیکر کرش کرلیں اور انہیں تقریباً ڈیڑھ پائو پانی میں ہلکی آنچ پر  10 منٹ پکائیں ۔   10روز آپ اسی طرح پکاکر پانی استعمال کریں
کارن سلک
مکئی کے بھٹوں کے بال یا سلک پرانے وقتوں سے پراسٹیٹ کے علاج کیلئے استعمال کیئے جا رہے ہیں۔ 5 بھٹوں کی سلک لیکر ایک پائو پانی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر 10 سے 15 منٹ تک پکائیں ۔ ہفتے میں تین بار آپ اسی طرح کارن سلک سلوشن استعمال کریں۔ تازہ کارن سلک کو  بعد میں استعمال کرنے کیلئے سٹور بھی کیا جاسکتا ہے۔
دودھ اور کھجور۔
ایک پائو دودھ لیکر اس میں تین چار چھوارے یا کھجوریں    کا ٹ کر ڈالیں اور پانچ سے دس منٹ کیلئے ہلکی آنچ پر پکائیں دودھ چائے کی طرح پئیں اور کھجور کے ٹکڑے بھی کھا لیں اس سے پراسٹیٹ گلینڈ کی سوزش اور پیشاب کی تکالیف دور ہو جائیں گی اور جسم کو بہترین غذا بھی مہیا ہوگی۔


Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: