مودی کا دوبارہ حکومت میں آنا بارتی عوام کیلئے ایک سانحہ ہو گا۔امریکی جریدہ 10 مئی 2019

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 5:10:00 AM -
  • 0 comments
واشنگٹن: 
امریکی جریدے ٹائمز میگزین نے اپنے نئے شمارے میں وزیر اعظم نریندرا مودی کی تصویر کے ساتھ “انڈیاز ڈیوائیڈر ان چیف” کا ٹائٹل دیتے ہوئے لکھا کہ اگر مودی کی حکومت بن گئی تو یہ سانحہ سے کم نہیں ہوگا۔

امریکی جریدے ٹائمز میگزین نے بھارتی وزیراعظم کی تصویر کے ساتھ “انڈیاز ڈیوائیڈر ان چیف” ( بھارت کی تقسیم کا ذمہ دار) کا کیپشن دے دیا، جریدے میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا بھارت اگلے پانچ سال بھی مودی جی کی حکومت سہہ سکے گی۔
امریکی جریدے ٹائمز میگزین میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق مودی حکومت کے اگلے پانچ سال کا اندازہ لگانے سے پہلے گزشتہ 5 سال کے اندازِ حکومت پر غور کرنا ضروری ہے، اس تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ چاہے بی جے پی کا اقتدار میں آنا ناگزیر ہے لیکن بھارتی عوام کے لیے یہ کسی سانحے سے کم نہ ہوگا۔
آرٹیکل میں مزید لکھا گیا کہ سیکولر بھارت کی دھجیاں اڑانے کے لیے بی جے پی 5 سال قبل اقتدار میں آئی اور انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ اور تفریق کو بڑھایا اور حالیہ انتخابی مہم کے دوران بھی مودی جی اپنے نعرے ’سب کا ساتھ سب کا ویکاس‘ کی خود دھجیاں اڑا چکے ہیں۔
کالم میں مودی سرکار کی معاشی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بھارت میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ مسلمانوں پر مشتعل انتہا پسندوں کے حملے آئے روز کی بات ہو گئی ہے اور ہندو اقلیت دلتوں کے لیے اپنی ہی ملک کی زمین تنگ ہو گئی ہے۔
آرٹیکل میں مزید کہا گیا کہ ابھی گزشتہ ماہ ہی بی جے پی چیف امیت شاہ نے مسلمانوں کو دیمک کے ساتھ تشبیہ دی۔ 2017 میں اترپردیش کے ریاستی انتخابات جیتنے کے بعد یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاست میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ایک انتہا پسند یوگی ادیتھیا ناتھ کو وزیر اعلی لگا دیا تھا۔
امریکی جریدے نے بھارت میں بڑھتی نفرت و تعصب کی سیاست پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ سچ تو یہ ہے کہ گزشتہ 5 سال بھارت میں تعصب کے نام پر مظالم عروج پر رہے تو اگلے 5 برسوں میں بھی بی جے پی کی وجہ سے اقلیتوں پر ان کے اپنے ملک کی زمین مزید تنگ ہو جائے گی۔

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: