ذیابیطس پر کنٹرول ، صحت مند گردوں کی ضمانت- 24 اپریل 2019

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 10:23:00 PM -
  • 0 comments
سڈنی آسٹریلیا: 
ایک عالمی سروے رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ دنیا بھر میں گردوں کے مریضوں کی تعداد بڑھنےکی ایک بڑی وجہ ذیابیطس اور موٹاپے کا مرض ہے۔ اسی لیے خون میں شکر کی مقدار کو سختی سے کنٹرول کرکے پوری دنیا میں گردوں کے مرض کے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ شوگر کنٹرول کرکے گردے کے امراض کے واقعات میں ایک تہائی کمی کی جاسکتی ہے۔
اس وقت ذیابیطس کی وجہ سے لاکھوں مریض گردوں کی ایک شدید مرض کے شکار ہیں جسے اینڈ اسٹیج کڈنی ڈیزیز (ای ایس کے ڈی) کہا جاتا ہے اور 2030 میں پوری دنیا میں اس کے مریضوں کی تعداد 14 کروڑ 50 لاکھ تک جاپہنچے گی لیکن افسوس یہ کہ ان میں سے صرف 55 لاکھ مریضوں کو ہی طبی سہولیات فراہم ہوسکیں گی جس کی وجہ غربت، ڈاکٹروں اور ہسپتال کی کمی، لاعلمی اور لاپرواہی ہے کیونکہ مریضوں کی اکثریت کا تعلق غریب ممالک سے ہوگا۔
ای ایس کے ڈی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن پوری دنیا میں بہت کم مریضوں کو ڈائلائسِس اور مناسب طبی سہولیات حاصل ہے۔ انٹرنیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی نے  اس بات کا انکشاف 160 ممالک میں تفصیلی سروے کے بعد کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہرسال 20 لاکھ افراد گردوں کے مرض سے مررہے ہیں جن کی اکثریت غریب ممالک میں رہتی ہے۔
کم آمدنی والے ممالک میں ای ایس کے ڈی کے صرف 4 فیصد مریض ہی اپنا علاج کراپاتے ہیں کیونکہ سرکاری طور پر اتنے مہنگے علاج کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی اور نجی ہسپتالوں میں اس کا علاج بہت مہنگا ہے۔
سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ذیابیطس کے تیزی سے اوپر جاتے ہوئے گراف کی وجہ سے گردوں کا مرض بڑھ رہا ہے۔ سال 2001 سے 2014 کے درمیان تھائی لینڈ میں گردوں کے امراض میں 1000 فیصد، فلپائن میں 190 فیصد اور ملائیشیا میں 162 فیصد بڑھا ہے۔
اس وقت دنیا میں 16 کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے بعد ہی گردوں کا مرض لاحق ہوا ہے اور اگر خون میں شکر کی مقدار کو برقرار رکھا جائے تو اس سے مرض میں ایک تہائی کمی کی جاسکتی ہے اور اموات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔
Source-

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: