بسوں ویگنوں رکشوں اور دیگر زمین پر رینگنے والی گاڑیوں مین تو آپ ہر روز اوور لوڈنگ کے نظارے دیکھتے ہیں لیکن یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ ہوائی جہاز جس نے سینکڑون مسافروں کو لیکر سینکڑون فٹ کی بلندی پر پرواز کرنا ہوتی ہے - معمولی سے غلطی یا غفلت سینکڑوں مسافروں کی جان لے سکتی ہے۔ اس میں بھی اوور لوڈنگ کی گنجائش موجود ہے ۔ وہ فضائی کمپنیاں جن کے اہلکار غیر معمولی اعتماد کی دولت سے مالا مال ہوں وہ اور لوڈنگ سے اپنی فضائی کمپنیوں کی انکم میں اضافہ کر سکتے ہیں
20 جنوری کو کراچی سے مدینہ منورہ جانے والی پرواز PK-743 بوئینگ 777 طیارےمیں عجیب و اقع پیش آیا۔ اس طیارے میں تمام بین الاقوامی حفاظتی اقدامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاز کی گنجائش سے زائد 7 مسافروں کو اضافی طور پرسوار کر لیا گیا۔ ان مسافروں نے تین گھنٹے کا سفر جہاز کی راہداریوں میں کھڑے ہو کرطے کیا۔بوئنگ 777 طیارے میں کاک پٹ کو چھوڑ کر عملے کی جمپ سیٹس سمیت کل 409 نشستیں ہوتی ہیں لیکن طیارے میں 416 مسافر سوار کرلیئے گئے۔
یہ 7 اضافی مسافر جن بورڈنگ پاسز کے ذریعے طیارے میں سوار ہوئے ان پر تفصیلات ہاتھ سے درج کی گئی تھیں۔ طیارے میں موجود خاتون سینئر پرسر کی طرف سے ان اضافی مسافروں کے بارے میں پائلٹ کو بتایا تھا لیکن پائلٹ کی جانب سےانہیں کہا گیا کہ ان مسافروں کو ایڈ جسٹ کر لیں۔
دوسری جانب پا ئلٹ کاکہنا ہے کہ اسے اضافی مسافروں کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب طیارہ فضا میں بلند ہو چکا تھا۔
طے شدہ پروٹوکول کے مطابق وہ اضافی مسافروں کو اتارنے کیلئے واپس نہیں آسکتے تھے۔ اگر پرواز کے فوراً بعد ایمر جنسی لینڈنگ کی ضرورت پڑجائے تو ایسی صورت میں طیارے کا لیڈنگ وزن کم کرنے کیلئے جہاز کا فیول ضائع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جس سے کمپنی کو نقصان ہوتا ہے۔ پی آئی اے کو اسی نقصان سے بچانے کیلئے پائلٹ نے واپس آنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ سعودی عرب تک اسی طرح سفر جاری رکھتے ہوئے اگرچہ ایندھن کا ضیاع روک لیا گیا تھا لیک اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان میں سرکاری ملکیت میں چلنے والی کمپنیز انسانی جانوں سے زیادہ اپنے منافع کو ترجیح دیتی ہیں۔
اس صورتِ حال سے یہ بھی اندازہ لگانا مشکل نہین کہ ان مسافروں نے تین گھنٹے سے زیادہ وقت کا یہ سفر کتنی مشکل سے طے کیا ہوگا، اگر دوران، پرواز کوئی ایمرجنسی صورتِ ح
ال پیش آجاتی تو آکسیجن ماسک کی عدم دستیابی اور حفاظتی سیٹ بیلٹس سے محرومی ان مسافروں کیلئے کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
0 comments: