کرپشن کی آڑ میں کرپشن

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 6:10:00 AM -
  • 0 comments

پہلے ہی خیر سے کرپشن کے معاملہ میں کافی ترقی یا فتہ تھے اوپر سے پانامہ کے ہنگامے نے اس کاروبار کو کمال؛ کی حد تک عروج بخش دیا ہے۔   پا نامہ کی آڑ نے  تمام محکموں کے پٹواریوں کو نیا حوصلہ دیا ہے کہ اگر بڑے بڑے جاگیردار، صنعت کار، لیڈران ،حکمران ،سیاستدان ،ڈاکٹر اور بیوروکیٹ اربوں کھربوں روپے لوٹ کر بیرونی دنیا کو مستفید کر سکتے ہیں تو وہ اپنی دنیا میں رہتے ہوئے اگر  تھوڑی بہت ترقی کرلیں تو اس میں کیا برائی ہے۔ اس شاندار صورتِ حال میں تمام پٹواریوں نے نئے جذبے اور نئے ولولے کے ساتھ اپنے ریٹ ریوائز کر کے کاروبار کو مزید وسیع کرلیا ہے۔

  پانامہ لیکس کی طویل لسٹ دیکھ کر سارے پٹواری انتہائی مطمئن اور شاد ہیں کہ مگر مچھوں کے احتساب سے ہی ادارے قیامت تک فارغ نہیں ہوں گے سوان کے خلاف کسی  احتسابی عمل کے شروع ہونے  کا نہ سوال،نہ جواز نہ امکان نہ تصور۔ امن ہی امن اور سکون ہی سکون۔
ایسا لگتا ہے جیسے پاک وطن میں  کرپشن کی ابتدا ہی اربوں روپے سے شروع ہوتی ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کے قصے سن سن کر لگتا ہے جیسے ارب روپے کوئی چھوٹی سی رقم ہو۔جو بھی کرپشن کا کیس منظرِ عام پر آتا ہے  اربوں میں ہی ہو تا ہے اس سے کم رقم تو جیسے کرپشن کی کیٹگری میں ہی شامل نہ ہو۔
کروڑوں کی کرپشن کرنے والے تو کسی لسٹ میں ہی نہیں ہیں۔ لاکھوں اور ہزاروں میں کرپشن کرنے والے بیچارے پٹواری۔ تحصیلدار، ڈاکٹر، ڈسپنسر،سپاہی تھانیدار،  لائن مین اور ایس ڈی او ،افسر اور اہلکار تو اس دور میں بہت شرمسار شرمسارمظلوم اور معصوم نظر آتے ہیں۔
اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے قصے دن رات سن سن کر سرکاری اہلکاروں نے کرپشن کے ریٹ بڑھا دیئے ہیں ۔ اب انہیں مٹھائی نہیں حصہ چاہئے۔ پٹواری ببانگِ دہل سائل پرگالیوں کی بارش کے ساتھ  حملہ آور ہوتے ہوئے غراتا اور فرماتا ہے۔ میں 100 لاکھ کی زمین تیرے نام لگا رہا ہوں میرا حق 5 لاکھ یہاں رکھو۔
دن رات کرپشن کے قصے کرپشن کی کہانیاں سن سن کر عوام نے بھی کرپشن کو جائز تسلیم کر لیا ہے۔ اپنےاخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے وہ پہلے ہی رشوت دینے کیلئے رقم کو اپنے اخراجات میں شامل کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں موت کی طرح یقین ہوگیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری اہلکار اپنی فیس کے بغیر کام نہیں کریگا۔
 اب تو سرکاری دفتروں سے کام کروانے کا یہ عام طریقہ ہے کہ پہلے متعلقہ اہلکار کو اس کی فیس جو اس نے مقرر کر رکھی ہے وہ ادا کرو اور بعد میں عر ضی داخل کرو۔
پاکستان کی جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے کرپشن کے ریٹ بھی بھی بڑہ رہے ہیں۔ تیل کا ریٹ بڑھ جائے دودھ کاریٹ بڑھ جائے یا قربانی پر بکروں کا ریٹ بڑھ جائے ساتھ ہی کرپشن کے ریٹ بھی بڑھ جاتے ہیں۔
کرپشن کنٹرول کرنے اور مانبیٹرنگ کیلئے کئی ادارے ہیں۔ اینٹی کرپشن۔وفاقی اور صوبائی محتسب، ایف آئی اے،فیڈرل اکائونٹس کمیٹی،آڈٹ کے ادارے، نیشنل اکائونٹیبلیٹی بیرو، ۔ لیکن ان تمام کی موجودگی میں کرپشن ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ کیا کمال ہے کہ اتنے اداروں کی موجودگی میں کوئی خون چوس جونک قابو آئی ہویا کسی کو سزا ہوئی ہو۔
عوام کو اچھی طرح معلوم ہے جس کے پاس اختیار ہے کرپشن کرنا اس کا پیدائشی حق ہے اور کوئی  کرپشن کنٹرول کرنے والا ادارہ اس سے یہ حق چھین نہین سکتا۔ آج حالات اس قدر خوفناک اور عبرتناک ہوگئے ہیں کہ اگر ایک سرکاری دفتر میں بیس اہلکار تعینات ہیں تو بیس کے بیس ہی راشی۔اگر کہیں 50 اہلکار ہیں تو پچاس کے پچاس ہی ڈا کو ۔ سرکاری نوکری کی آڑ میں کرپشن کی ذاتی دکانیں سجا رکھی ہیں، سرکار کی نوکری ذاتی کاروبار بن گیا ہے۔ شام کو دن کے کاروبار کا باقاعدہ حساب کیا جاتا ہے کہ آج کا دن کتنا سنہری رہا کرپشن کی غلاظت سے خود خوشحال ہو رہے ہیں لیکن ادارے اورملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں کوئی ٹوکنے والا۔ اوپر والے بھی شاد نیچے والے بھی شاد۔
عوام کی نظر میں کرپشن کنٹرول کرنے والے ادارے کرپشن کنٹرول نہیں کرتے بلکہ یہ اپنا حصہ وصول کر کے اہلکاروں کو کرپشن ہضم کرنے کے نئے نئے فنون سے اگاہ کرتے ہیں۔جب بھی حکومتِ وقت کسی بھی وجہ سے کرپشن ختم کرنے کیلئے کوئی نیا ادارہ کھولتی ہے عام عوام پریشان ہو جاتی ہے کہ ان کیلئے نئی مصیبت پیدا ہو گئی اب نئے اہلکار بھی اپنا حصہ وصول کریں گے۔
کرپشن نے ہمارے وطن کو برباد کیا ہے آیئے ہم سب مل کریہ عہد کریں کہ کرپشن کو برداشت نہیں کرین گے اور کرپشن کے مزے لوٹنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ 
کرپشن ہمارے وجود کو ختم کر دے گی یہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔ اپنے وجود کو بچانے کیلئے ہمیں کرپشن کے خاتمے کا فیصلہ کرنا پڑے۔

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: