موٹاپا

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 4:18:00 AM -
  • 0 comments




موٹاپا کا مطلب پھول کر کپا ہو جانا ہی نہیں۔ معیاری جسمانی وزن سے زیادہ وزن ہونا بھی مسا ئل پیدا کرتا ہے۔ دنیا بھر میں مشینی سہولتوں نے زندگی آسان بنا دی ہے۔جسمانی مشقت بہت کم ہو گئی ہے۔کھانے پینے کی عادتیں خراب ہو گئی ہیں۔چنانچہ لوگوں کے وزن بڑھ رہے ہیں اور اس سے متعلقہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ہم اپنے اضافی وزن سے نجات پا سکتے ہیں اور پھر اس سے محفوظ بھی رہ سکتے ہیں۔ متوازن اور مناسب غذا اور ورزش ایک ایسا پلان ہے جو ہمیشہ کامیاب رہتا ہپے۔
وزن کنٹرول میں رکھنے کیلئے غذائی حکمتِ عملی کی بہت اہمیت ہیں۔ اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو آپ کو خوراک کے معاملے میں بہتر حکمت، عملی اختیار کرنی چاہئے اور اس پر سختی سے عمل کرناچاہئے۔ وزن کنٹرول کرنے کیلئے ماہرین کی چند ہدایات مندرجہ ذیل ہین۔
دن کے آغاز میں رغبت سے کھائیے    
علی الصبح پیٹ بھر کر کھانے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اسے ہضم کرنے کیلئے بہت سا وقت ہوتا ہے۔ 
ناشتہ کسی بادشاہ کی طرح کریں۔ دوپہر کا کھانا کسی ملکہ کی طرح کھائین ۔رات کا کھانا کسی مفلس یا غریب آدمی کی طرح کھائیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ تینوں کھانوں میں غذائوں کی مقدار اور معیار بتدریج کم کرتے جائیں۔ کمتر معیار سے مراد انتہائی سادہ اور غیر مرغن کھانا ہے۔ رات کے وقت مرغن اور چکنائی سے لبریز کھانا کبھی مت کھائیں۔ صبھ کے وقت چکنائی جلانے والے انزائمز  Enzymes خوب کام کرتے ہیں ۔ صبح کے وقت کھایا ہوا کھانا رات کے کھانے کے برعکس تیزی سے ہضم ہوتا ہے۔
مرکب کاربوہائیڈریٹ کھائیں 
ستر فیصد مرکب کاربو ہائیڈریٹس پر مشتمل غذائیں پروٹین سے لبریز غذائوں سے زیادہ توانائی مہیا کرتی ہیں اور نظام جزب وہضم پر زیادہ بوجھ بھی نہیں بنتیں۔ کاربوہائیڈریٹس والی غذائوں میں سبزیاں، پھل ، چاول ، چپاتی پھلیاں ، مٹر دالیں وغیرہ شامل ہیں۔اس طرح کی مخلوط غذائین دماغ میں ایک ایسا کیمیکل پیدا کرتی ہیں جو زیدہ کھانے سے پیدا ہونے دبائو کو تحلیل کرتا ہے۔ اس کیمیکل کو         سیرو ٹو نین کہتے ہیں۔
پروٹین کی مقدار اعتدال میں رکھیں
گوشت کم مقدار میں استعمال کریں ۔ گوشت میں چکنائی زیادہ اور غذائی ریشہ نہیں ہوتا  ۔کاربوہائیڈریٹس والی غذائیں غذائی ریشے سے لبریز ہوتی ہین اور پیٹ بھرجانے کا احساس دلاتی ہیں، آپ کھانا کم کھاتے ہیں جبکہ گوشت کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔
تھوڑا تھوڑا کھانا۔
ایک مئوثر حکمتِ عملی یہ بھی ہے کہ آپ ایک ہی وقت میں بہت ساکھانا کھانے کی بجائے وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا کھائیں۔اس طرح بھوک کی شدت بھی نہیں رہتی اور بلڈ شوگر لیول بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔
چکنائی کا کم استعمال
روزانہ کیلوریز کی ضرورت کا 10 سے 20 ٪ چکنائی پر مشتمل ہونا چاہیئے۔ مثلاً 2000 کیلوریز کے حصول میں صرف 200 کیلوریز چکنائی سے حاصل کریں۔ یعنی 2 سے 4 گرام چکنائی۔ 
ورزش
معتدل ورزشیں اپنائیں۔ واک یا پیدل چلنا ایک عمدہ ایروبک ورزش ہے۔ اس سے چکنائی تحلیل ہوتی ہے۔
وزن کم کرنے کیلئے ورزش کی شدت نہیں تسلسل کی ضرورت ہے۔ روزانہ واک کریں اور کم از کم 20منٹ تک روزانہ باقاعدگی سے جاری رکھیں-
امریکی ڈاکٹر ٹیری  نے نیوٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈ گری ہاورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تعلیم کے دوران انہون نے دنیا کے مختلف خطوں کے لوگوں کی صحت اور جسمانی وزن اور خوراک  کا مطالعہ کیا ۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ جو قومیں کم چکنائی اور زیادہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل قدیم روایتی غذا ئیں کھانے کی عادی ہیں انکے افراد دبلے پتلے رہتے ہیں اور ان بیماریوں سے محفوظ  ہیں جو ترقی یافتہ قوموں میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہین ، مثلاً امراضِ قلب برین سٹروک کینسر اور زیابیظس وغیرہ  ۔
اس کے برعکس  جو لوگ زیادہ چکنائی والی حیوانی غذائیں کھاتے ہیں اور نفیس غذائوں کے عادی ہیں وہ اضافی وزن کا شکار ہوکر بیمار ہو جاتے ہیں۔
مزید حیران کن حقیقت یہ تھی کہ ایسے لوگ جوروایتی غذائیں کھاتے ہیں  جن میں 78٪ کاربوہائیڈریٹس ہوتے ہیں وہ بسیار خوری کے باوجود اضافی وزن کا شکار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائوں کی اقسام میں MI ماس انڈیکس کافرق ہوتا ہے۔ جو لوگ اعلیٰ ماس انڈیکس  والی غذائیں استعمال کرتے ہیں وہ دبلے پتلے رہتے ہیں جو لوگ کمتر ماس انڈکس والی غذائیں
استعمال کرتے ہیں وہ موٹے ہو جاتے ہیں۔
 اعلیٰ ماس انڈکس رکھنے والی کچھ غذائیں اور ان کے نمبر درج ہیں۔
تماٹر 27.3 ، گوبھی 17.1 ،گاجر 13 ، جو9.9 ، سیب 9.4 ،مکئی 6.5 ،       شکرکندی 5.4 ۔
کم ماس انڈیکس رکھنے والی کچھ غذائوں کی مثالیں۔
آلو کے چپس 2.3  ، چیز برگر2.1  ، فرنچ فرائز 1.7 ، سینڈ وچ 1.6 ، ھیوانی چکنائی۔ 0.6  ،ڈینش پیسٹری 1.5 ۔
جن غذائوں کا ماس انڈیکس 4.1 سے زیادہ ہوتا ہے وہ  آپ کا وزن  کم رکھتی ہیں  ۔جبکہ اس سے کم ماس انڈیکس والی غذائون کا استعمال وزن بڑھاتا ہے۔


Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: