یہ ناداں گر پڑے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

  • Posted by Mian Zahoor ul Haq
  • at 2:05:00 AM -
  • 0 comments

کرپشن نے ہمارے ملک کو تباہ کردیا۔ پچھلے تین چار سال سے کرپشن کے خلاف بڑے زور وشور کے ساتھ آوازیں سنائی دینے لگیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کرپشن کی واردات منظرِ عام پر آنے لگیں۔ سب سے بڑھ کر تحریکِ انصاف نے کرپشن کے خلاف خاص طور پر مظبوط محاذ قائم کیا اور جناب عمران خان نےبڑی جرائت اور دلیری کے ساتھ تین دہایوں سےاقتدار پرقابض سیاسی جماعتوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ کرپشن کے خلاف 120 دن کا دھرنا دنیا کی تاریخ میں سیاسی احتجاج کی ایک انوکھی مثال ہے۔
پانامہ لیکس نے کرپشن کے خلاف ایک اور زبردست محاز فراہم کیا اور پاکستان تحریک، انصاف نے پانامہ لیکس کے حوالے سے حکومت کوآڑے ہاتھوں لیا، جلسے کیئے ،جلوس اور ریلیاں کیں، اسلام آباد بند کرنے کی کوشش کی پھر سپریم کورٹ میں پوری طاقت کے ساتھ  پانامہ کیس لڑا۔ 
ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب پاکستان میں کرپشن کیلیئے کوئی جگہ نہیں۔  پاکستان میں کسی بھی کرپٹ فرد کو امان نہیں مل سکے گی۔
پچھلے کچھ دنوں میں صورتِ حال توقعات کے خلاف یکسر بدل گئی۔ جناب آصف علی زرداری جو اینٹیں بجاتے ہوئے باہر تشریف لے گئے تھےواپس تشریف لے آئے۔ پھر جناب شرجیل میمن  گرجتے برستے تشریف لے آئے اور پتہ نہیں اور کون کون۔ 
ایان علی  قصہ تو پہلے ہی تمام ہو چکا تھا  اور اب جناب ڈاکٹر آصف کو بھی عزت مآب طور پرخلاصی نصیب ہو گئی ۔
زیادہ حیرانی اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال کے متعلق کوئی عوامی، سیاسی، قانونی، عدالتی ردِ عمل سامنے نہیں آیا جیسے کچھ ہو اہی نہیں۔ وہ کرپشن دشمن اینکر پرسن کہاں گئے جو ٹی وی چینلوں پر کرپشن کرپشن کھیل رہے تھے اورکرپشن ختم کرنے کی کوششوں کو سب سے بڑا جہاد قرار دیتے تھے۔ کرپشن کے خلاف سب سے جاندار اور واضح موقف رکھنے والی تحریکِ انصاف کہاں گئی جو پاور پالیٹکس میں اپنا ثانی کسی کو نہیں مانتی۔ مذہبی جماعتیں اور جماعتِ اسلامی کہاں ہے جو لقمہ حرام کو شر اور بربادی کا بنیادی ذریعہ سمجھتی تھیں ۔ نہ جلسہ نہ ریلی نہ دھرنا۔
کیا میڈیا کی صرف اتنی ہی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ فرمادیں کہ حکومت اور پیپلز پارٹی میں کوئی ڈیل ہوگئی ہے جس کی وجہ سے لوگ واپس آرہے ہیں اور رہا ہورہے ہیں۔ کیا تحریکِ انصاف اور جناب عمران خان کیلئے اتنا بتا دینا کافی تھا کہ مک مکا ہوگیا ہے ۔ نورا کشتی ہے۔
یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا
اب وقت تھا  کہ کرپشن کے خلاف جو فضا اور ماحول بناتھا اس کی حفاظت کی جاتی اور اسے قائم رکھا جاتا۔ اس بدلتی ہوئی صورتِ حال کے متعلق قومی سطح پر کوئی بہتر مئوقف سامنے آتا تاکہ  تمام اداروں پر واضح ہوجاتا کہ عوام کرپشن کے معاملہ میں  کسی قسم کی رعایت دینے کیلئے تیار نہیں۔میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری صرف ڈیل اور مک مکا بتا کر ختم نہیں ہوجاتی۔
جنرل راحیل کے آرمی چیف بننے کے بعد کرپشن کے خلاف  شدت پیدا ہوئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کرپشن دہشت گردی کااصل محرک ہے ۔ کرپشن کے پیسے سے دہشت گردی کیلئے وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔ان کی قابلِ قدر کوششوں سےکرپشن کے خلاف سیکورٹی فورسز نے کامیاب اقدامات اٹھائے اور کرپٹ عناصر پر خوف طاری ہونے لگا۔ جن لوگوں نے بڑے پیمانے پر کرپشن کی تھی وہ خوف کے مارے بیرونِ ملک بھاگنے لگے۔ 
یہ جنرل راحیل شریف ہی تھے جنہوں نے ایم کیو ایم کی ملک دشمن سر گرمیوں کے خلاف کاروائی کی اور قائد ایم کیو ایم کے پھن سے زہر  نکالا جو بیرونِ ملک بیٹھ کر پاکستان کی دولت پر عیش کررہا تھا اور پاکستان کو کرپشن ، دہشت گردی
غنڈہ گردی ، قتل و غارت اور بھتہ خوری کے ذریعے تباہ کر رہا تھا۔ تمام سیاستدان الطاف حسین کی ملک دشمن سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ان کے منہ بند تھے کیونکہ کرپشن اور لوٹ مار کے کھیل میں دیگر سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔
کرپشن کے خلاف جو فضا بنی تھی اور سیکورٹی فورسز نے کرپشن کے خلاف جدوجہد کرکے جو کامیابی حاصل کی تھی وہ سب ضائع ہو گئی ہے اور کرپشن پھلنے پھولنے کا موسم پھر لوٹ آیا ہے ۔ اشارے بتا رہے ہیں کہ اب اس شدت کے ساتھ
کرپشن ترقی کرے گی کہ سارے سابقہ ریکارڈ حقیر نظر آنے لگیں گے۔ کیونکہ کرپشن کو پتہ چل گیا ہے کہ اس ملک میں ہر کوئی کرپشن کا شیدائی ہے کرپشن ختم کرنا کوئی نہیں چاہتا کیونکہ اس ملک میں کرپشن ہی سب کچھ ہے۔ کرپشن عبادت ہے، کرپشن سیاست ہے، کرپشن اقتدار ہے، کرپشن تفریح اور کرپشن ہی روزگار ہے۔
دل ہے مسلماں میرا نہ تیرا
توبھی نمازی میں بھی نمازی

Author

Written by Admin

Aliquam molestie ligula vitae nunc lobortis dictum varius tellus porttitor. Suspendisse vehicula diam a ligula malesuada a pellentesque turpis facilisis. Vestibulum a urna elit. Nulla bibendum dolor suscipit tortor euismod eu laoreet odio facilisis.

0 comments: